02-Dec-2021 لیکھنی کی کہانی -انکار کی گھٹن
کیا اصل خوبصورتی چہرے سے ہوتی ہے ۔کسی کا سچہ دل پاک کردار کوئی معنی نہی رکھتا ۔
اپنی چھت پر بیٹھی سنا اپنے خدا سے باتے کر رہی تھی ۔۔مایوسی اسکے چہرے سےصاف ظاہر ہو رہی تھی ۔اُسکے پاس ہزار سوال تھے ۔۔
لیکن دنیا کے لیے اُسکے سوال بے مینی تھے ۔تبھی تو اپنے رب سے اپنے دل کا حال بیاں کر رہی تھی ۔
پاچ سال سے لگاتار سنا کے رشتے آرہے تھے ۔لیکن ہر کوئی اسے انکار کرکے چلا جاتا ۔کیوکی سنا چہرے سے خوبصورت نہی تھی۔ دنیا وہ دیکھتی تھی جو اُسکے پاس نہی تھا ۔انکار کی گھٹن نے سنہ کو توڑ دیا تھا ۔ہر وقت اپنے غم میں کھوئی رہتی تھی ۔دنیا والوں نے اسے نفسیاتی مریض بنا دیا تھا ۔۔۔
لڑکی کی بھی کیا زندگی ہوتی ہے ۔سجا بنا کر لڑکے والو کے سامنے نمائش کرنے کو بیٹھا دیا جاتا ہے ۔
اگر لڑکی خوبصورت ہے ۔تو ما باپ کا فرض آسانی سے ادا ہو جاتا ہے ۔
اگر خوبصورت نہی تو ماں باپ عمر بھر بچوں کے رشتے کے لیے خاک چھانتے رہتے ہیں ۔۔
جیسے سنا کے بھائی چھان رہے تھے ۔بدقسمتی تو دیکھو ماں باپ بھی بچپن مے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
کہتے ہے بھائی باپ کا دوسرا روپ ہوتا ہے ۔
لیکن سنا کہتی باپ باپ ہی ہوتا ہے ۔باپ کے جیسا خدا نے دوسرا کوئی پیدا نہیں کیا ۔۔
سنا اپنے دل کا حال اپنی ایک سہیلی کو سناتی جو سنا سے پانچ سال چھوٹی تھی ۔۔
لیکن دل کا حال جاننے والی اُسکی ہمدرد تھی ۔
ایک دن سنا نے اپنی سہیلی شفا سے کہا ۔
شفا ماں باپ کی دعا بچوں کو بہت جلدی لگتی ہے ۔
میری قسمت شاید اسلئے بھی بری ہے ۔کے میرے ماں باپ نہی ہے ۔سنا کی باتوں نے شفا کی آنکھوں کو نام کر دیا۔
اپنے آنسو پوچھتے ہوئے شفا بولی سنا تم ایسا کیوں سوچتی ہو ۔تمہارے ماں باپ ہی تو نہی ہے ۔۔خدا تو ہے ۔تم پریشان مت ہوا کرو ۔دیکھنا ایک دن تم اپنی قسمت پر رشک کروگی ۔۔
اللہ کے گھر دیر ہے ۔لیکن اندھیر نہی ۔۔
سنا کہتی ہے ۔شفا تمہاری بات صرف مجھے الفاظ لگتے ہے ۔مجھے میری زندگی بوجھ لگنے لگی ہے ۔۔
شفا سنا کو بہت سمجھاتی لیکن دنیا کی سوچ اسے اپنے اندر ڈوباتی ہی جاتی ۔۔
اپنی زندگی سے سنا ایسے عوب گئی تھی ۔جیسے ۵۰سال کا کوئی شخص اپنی زندگی سے اُوب جاتا ہے ۔۔ورنہ یہ ۲۰۔ ۲۵ سال کی عمر تو شیطانیوں اور مستیوں میں ہی گزر جاتی ہے ۔
ایک دن سنا کا ایک رشتا آیا ۔
لڑکا انپڑ اور جاھل تھا ۔نہ گھر، نہ سلیقہ اور نہ کسی سے بات کرنے کی تمیز، یے پہلا رشتا تھا جسنے انکار نہی کیا تھا ۔
لیکن کیا فائدہ ایک تو رشتا نہی آتا اسکا دکھ اب آگیا تو اُسکا دکھ ۔سنا کے بھائیوں کے پاس کوئی چارا نہیں تھا ۔جو بھی دیکھنے آتا ۔انکار کرکے چلا جاتا ۔سنا کے بھائی بھی جلد از جلد اپنے سر منڈرا رہی مصیبت سے ہاتھ پاک کرنا چاہتے تھے۔
آخرکار رشتا ہو گیا ۔سنا کی قسمت میں اب صبر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔باپ کی بیٹی ہوتی تو انکار کر دیتی ۔لیکن سنا انکار کیسے کرتی وہ بھی تو ۔ بہن تھی ۔باپ تو باپ ہی ہوتا ہے ۔۔
تنہا ہونے پر سنا کو اپنے مرحوم بابا کی بہت یاد آئی ۔سنا زیادۃ تر اپنے آپ سے یہ اپنے رب سے باتیں کیا کرتی تھی ۔۔
شفا نے سنا سے ہزار بار منہ کیا کے وہ اس رشتے سے انکار کر دے ۔لیکن کیسے کہ سکتی تھی ۔
یہ تو وہ ہی جانتی تھی کی انکار کا نتیجہ کیا ہوگا ۔شفا کہتی سنا شادی کرنے سے بہتر ہے ۔خدا تُجھے موت دے دے ۔۔۔
ایک بار تو مریگی تو ۔۔
شادی کرکے تو ہر روز مریگئی ۔
اور ہم بھی ایک دن رو کے صبر کر لینگے ۔ہمسے روز روز نہی رویہ جائیگا ۔۔۔اتنا کہتے ہی شفا زور سے رونے لگی ۔سنا مسکرائی اور بولی ۔میرے لیے مت رو شفا ۔زندگی کی ٹھوکریں میری تقدیر میں ابھی بہت ہے ۔زندگی کو آزما لینے دے ۔۔
سنا نے شفا کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔۔
کچھ سال بعد سنا کی شادی ہو گئی ۔۔۔
شادی کے دوسرے دن رات کا بچا ہوا کھانا کھانے کو دیا گیا ۔اس پر بھی صبر اور خدا کا شکر کیا ۔
شادی کی صبح دلہن کے آگے اتنا ناشتہ رکھا جاتا ہے ۔جس کی کوئی انتہا نہیں ۔عجیب قسمت تھی ہر طرف سے دکھ اور پریشانی ۔لڑکیوں کو کتنا ارمان ہوتا ہے ۔شادی کا لیکن سنا کا ہر ایک ارمان دم توڑ رہا تھا ۔خیر اب اُسکا سسرال تھا ۔کرتی بھی تو کیا کرتی ۔نہ بہت ہمت تھی سنا میں جو کچھ کہہ پاتی، اُس نے ایک انپڑھ انسان سے شادی کی تھی ۔
شادی کے دوسرے دن جب سنا کے بھائی بھابی اسے لینے کے لئے گئے ۔ساتھ میں شفا بھی گئی ۔جیسے ہی شفا دروازے سے اندر کو آئی اُس نے دیکھا ایک پرانا سا گھر ہے ۔ ہر طرف مٹّی ہی مٹّی تھی اس مٹّی بھرے آنگن میں ایک دن کی دلہن جھاڑو لگا رہی تھی ۔شفا نے جب سنا کو دیکھا اُسکے قدم وہیں ٹھہر گئے ۔من میں آیا الٹے پیر واپس لوٹ جائے ۔لیکن کیسے جاتی سنا نے اسے دیکھتے ہی اپنے گلے سے لگا لیا ۔
سب لوگ جاکر اندر بیٹھ گئے ۔شفا سنا کہ کمرہ دیکھ رہی تھی ۔کمرے میں پیر رکھنے کی جگہ نہیں تھی ۔بھائی نے اتنا دھیز دیا تھا ۔
لیکن سامان رکھنے کے لئے دوسرا کمرہ نہیں تھا ۔
سنا کی ساس نے اسے آواز لگائی سارا ناشتہ سنا نے بنایا ۔شفا اسکو دیکھ رہی تھی ۔آج اسے لگ رہا تھا کی واقعی میں سنا کو مر ہی جانا چاہئے تھا ۔
ایسی زندگی خدا دشمن کو بھی نہ دے ۔۔
اتنی پڑھی لکھی لڑکی ذرا سی کم خوبصورتی کی وجہ سے کتنا درد جھیل رہی ہے ۔۔
اگر کوئی سنا کے علم اور اخلاق کو دیکھ پاتا ۔
تو آج اسکی یہ حالت نہ ہوتی ۔لیکن اتنا کچھ سہنے کے بعد بھی سنا خوشی خوشی سب کام کر رہی تھی ۔جیسے اسے ساری خوشیاں مل گئی ہوں ۔۔
جاتے وقت شفا بنا ملے چلی گئی ۔
اپنے بھائی اور بھابی کو ودا کرکے سنا اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔
سنا اور انتظار دونوں بیٹھ کر باتیں کرتے رہے۔
سنا اپنی اس زندگی سے بھی خوس تھی ۔اُس کو اب انتظار سے محبت ہونے لگی تھی ۔
منگنی کے بعد سنا نے اپنی سہیلیوں کو انتظار کا فوٹو دکھانے سے منع کر دیا تھا ۔لیکن آج سنا انتظار سے محبت کرنے لگی تھی ۔وہ کیسا ہے ۔اس سے اسکو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔
انتظار جیسا بھی تھا ۔اُسکے لیے بہت اہم تھا ۔
ایک اچھی بیوی کی طرح سنا اپنا ہر فرض نبھا رہی تھی ۔۔
دونوں نے آنے والی زندگی کے بارے میں باتے کرنا اور سپنے سجانا بھی شروع کر دیے تھے ۔
سنا کہتی مجھے ایک پیارا سا بیٹا چاہیے ۔
انتظار کہتا نہیں مجھے ایک پیاری سی بیٹی چاہئے ۔
سنا کہتی تمہارے جیسی ۔۔۔۔
اس پر انتظار کہتا نہیں میرے جیسی نہیں میں تو کالا ہوں ۔مجھے تمہارے جیسی بیٹی چاہیے ۔
سنا انتظار کا ہاتھ پکڑ کر کہتی کون کہتا ہے آپ اچھے نہیں ہیں!
آپ بہت اچھے ہیں ۔اتنے اچھے کی میں تمہارے بنا ایک پل بھی نہی رہ سکتی ۔۔
انتظار سنا کو گلے لگا لیتا ۔ پھر مذاق میں کہتا ۔ایک بات بتاؤ! تم نے مجھ جیسے انپڑھ اور گوار انسان
shahil khan
02-Mar-2023 05:31 PM
nice
Reply
Rachna Bhagat
16-Feb-2022 08:19 PM
بہت خوب
Reply
Simran Bhagat
15-Feb-2022 04:55 PM
Wow Amazing di ❤❤
Reply